Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
16 - 146
مسئلہ ۳۱:     ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ

علمائے شرع شریف اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ چوڑی دار پائجامہ پہننا کیسا ہے اور جو اشخاص بوتام لگا کر پہنتے ہیں پنڈلیوں کو چمٹا ہوا اور تعبیر کرتےہیں کہ یہ پائجامہ شرعی ہے۔ یہ قول ان کا صحیح ہے یاغلط۔ یعنی اسے شرعی پائجامہ کہنا ۔بینو ا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : چوڑی دار پاجامہ پہننا منع ہے کہ وضع فاسقوں کی ہے۔   شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی عنہ آداب اللباس میں فرماتے ہیں :
سراویل کہ در عجم متعارف است کہ اگر زیر شتالنگ باشد یا دوسہ چین واقع شود بدعت وگناہ است ۱؎۔
شلوار جو عجمی علاقوں میں مشہور ومعروف ہے اگر ٹخنوں سے نیچے ہو یا دو تین انچ (شکن) نیچے ہو تو بدعت اور گناہ ہے۔ (ت)
(۱؎ آداب اللباس)
یونہی بوتام لگا کر پنڈلیوں سے چمٹا ہوا بھی ثقہ لوگوں کی وضع نہیں۔ آدمی کو بدوضع لوگوں کی وضع سے بھی بچنے کا حکم ہے یہاں تک کہ علماء درزی اور موچی کو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فاسقوں کے وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے نہ سِیے اگر چہ اس میں اجر کثیر ملتاہو۔
فتاوٰی امام قاضیخاں میں ہے :
الاسکاف اوالخیاط اذا استوجر علی خیاطۃ شیئ من زی الفساق ویعطی لہ فی ذٰلک کثیر الاجر لایستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ ۲؎۔
اگر موچی یادرزی سے جب فاسقوں کی وضع کے مطابق کوئی چیز بنوانے یا سلوانے کے لئے اجارہ دی جائے تو اس کام کے لئے اسے بہت اجرت دی جائے تو اس کے لئے یہ کام کرنا بہتر نہیں اس لئے کہ یہ گناہ کے سلسلے میں امداد ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتا ب الحظروالاباحۃ     نولکشھور لکھنؤ        ۴ /۷۸۰)
تویہ پاجامہ بھی اس راہ سے شرعی نہ ہو اگر چہ ٹخنوں سے اونچا ہونے میں حد شرع سے متجاوز نہیں ، شرعی کہنا اگرصرف اسی حیثیت سے ہے تو وجہ صحت رکھتاہے۔ اور اگر مطلقا مرضی وپسندیدہ شرعی مراد جیسا کہ ظاہر لفظ کا یہی مفاد تو صحیح نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۲: از جالندھر محلہ راستہ متصل مکان ڈپٹی احمد جان صاحب  مرسلہ احمد خاں صاحب ۲ شوال ۱۳۱۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایڑی والی جوتی یعنی مثل جوتی مردوں کے عورت پہن لے تو درست ہے یانہیں ؟ مردانی جو تی عورت نمازی کے واسطے پاؤں کو ناپاکی سے بچانے کے لئے بہت خوب ہے۔ خیر جیساشریعت میں حکم ہے باسند بحوالہ کتاب ارشاد فرمائیں۔۔
الجواب

ناجائز۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لعن اﷲ المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء، رواہ الائمۃ احمد والبخاری وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
اللہ کی لعنت ان عورتوں پرجو مردوں سے مشابہت پیدا کریں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے تشبہہ کریں ۔ (ائمہ کرام مثلا مام احمد بخاری ، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ نے اس کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔ ت)
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب اللباس  باب المتشبہین بالنساء الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۷۴)

(سنن ابی داؤد     باب فی لباس النساء         آفتا ب عالم پریس لاہور        ۲ /۲۱۰)

(جامع الترمذی ابوب الاستیذان والادب باب ماجاء فی المتشبہات     امین کمپنی دہلی  ۲ /۱۰۲)

(سنن ابن ماجہ   ابوب النکاح باب فی المخنثین     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ص۱۳۸)

(مسند احمد بن حنبل     عن ابن عباس     المکتب الاسلامی بیروت        ۱/ ۳۳۹)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :
لعن اﷲ الرجل یلبس لبسۃ المراۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجل۔ رواہ ابوداؤد والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔
اللہ تعالٰی اس مرد پر لعنت کرے جو عورت جیسا لباس پہنے اور عورت پر بھی لعنت کرے جو مر دجیسا لباس پہنے۔ ابوداؤد اورحاکم نے صحیح سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا (ت)
 (۲؎ سنن ابی داؤد  کتاب اللباس باب فی لباس النساء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۲۱۰)
درمختار میں ہے :
غزل الرجل علی ھیأۃ غزل المرأۃ یکرہ ۱؎۔
عورت کے انداز سے مرد کا بال گوندنا مکروہ ہے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع     مجتبائی دہلی         ۲ /۲۵۳)
ردالمحتارمیں ہے :
لما فیہ من التشبہ بالنساء ۲؎۔
اس لئے کہ اس میں عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔ (ت)
 (۲؎ ردالمختار    کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۷۴)
اسی میں ہے :
انما یجوز التختم بالفضۃ لو علی ھیأۃ خاتم الرجال امالو لہ فصان اواکثر حرم قہستانی ۳؎۔
فقہی اعتبار سے چاندی کی ایسی انگوٹھی پہننا جائز ہے جو مردوں کے لئے مروج ہو لیکن اگر اس میں دو یادو سے زائد نگینے ہوں تو ایسی انگوٹھی کا استعمال مردوں کے لئے حرام ہے۔ قہستانی (ت)
 (۳؎ ردالمحتار    کتاب الحظروالاباحۃ   فصل فی اللبس  داراحیاء التراث العربی بیروت     ۵ /۲۳۱)
بلکہ بحمداللہ تعالٰی خاص اس جزئیہ میں حدیث حسن وارد، سنن ابوداؤد میں ہے :

حدثنا محمد بن سلیمان لُوَین وبعضہ قرأت علیہ عن سفیان عن ابن جزئیج عن ابن ابی ملیکۃ قال قیل لعائشۃ ان امرأۃ تلبس النعل فقالت لعن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم والرجلۃ من النساء ۴؎ محمد بن سلیمان بن حبیب الاسدی بالتصغیر ثقۃ من العاشرۃ تقریب ۵؎ والبقیۃ ائمۃ جلۃ معروفون وقد کان الحکم بالصحۃ لولا عنعنۃ ابن جریج لاجرم قال المناوی ۱؎ فی التیسیر والقاری فی المرقاۃ اسنادہ حسن۔

(ہم سے محمد بن سلیمان لوین نے بیان کیا اس کا کچھ حصہ میں نے اس کے سامنے پڑھا اس نے سفیان ، اس نے ابن جریج، اس نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کی اور کہا۔ ت) یعنی ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے عرض کی گئی ایک عورت مردانہ جوتا پہنتی ہے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لعنت فرمائی مردانی عورتوں پر۔ (محمد بن سلیمان بن حبیب اسد ی (یہ تصغیرکے ساتھ ہے) دسویں طبقہ کا معتبر راوی ہے۔ تقریب، باقی چند مشہور جلیل القدرائمہ ہیں۔ حدیث پر صحت کا حکم ہوتا اگر ابن جریج کی روایت میں عنعنہ نہ ہوتا بیشک علام مناوی نے التیسیر میں اور ملا علی قاری نے مرقاۃ میں فرمایا کہ اس کی سند حسن ہے۔ (ت)
(۴؎ سنن ابی داؤد     کتاب اللباس باب فی لباس النساء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۲۱۰)

(۵؎ تقریب التہذیب     لابن حجر العسقلانی     ترجمہ ۵۹۴۴  حرف المیم   فصل س دارالکتب العلمیہ بیروت۲ /۸۲) 

(۱؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر     تحت حدیث لعن اللہ الرجلہ من النساء     مکتبہ الامام الشافعی ریاض    ۲ /۲۹۲)
مرقاۃ میں ہے :
تلبس النعل ای التی تختص بالرجال ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تلبس النعل یعنی عورت اگر ایسا جوتا پہنتی ہے جو مردوں کے لئے مختص ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ      کتاب اللباس باب الرجل حدیث ۴۴۷۰     المکتببۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۲۴۶)
مسئلہ ۳۳:    	کیا ہے حکم شرع شریف میں نسبت پہننے ٹوپی سچی یا جھوٹی سلمہ ستارہ یا ریشم کی۔

الجواب :  چارانگل سے زائد ناجائز اور اس کاا ستعمال ممنوع ہے۔ اور متفرقا ریشم کا کام ہو خواہ سونے چاندی کا جمع نہ کیا جائے گا جب تک مثل مغرق کے نظرنہ آتاہو۔ اور جھوٹے کام کا جزئیہ اس وقت نظرمیں حاضر نہیں اگر سونا چاندی غالب یا مساوی ہے تو اس کا حکم سونے چاندی ہی کے مثل ہے اور مغلوب ہے یاصرف تابنا تاہم ظاہرا کراہت سے خالی نہیں خصوصا ایسی حالت میں کہ نساء یا فساق کی وضع مخصوص ہو کہ اس صورت میں کراہت یقینی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter